سہ ماہی صدائے لائبریرین جلد 7، شمارہ 1،2۔ جنوری ۔ جون، 2020
9/14/2020 3:00:06 PM 1975
<p>انسان کےلئےاس سےزیادہ قابل ِ حسرت بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ تمام عمر ایسے کاموں میں گزاردے جو اس کے کرنے کے نہیں ہوتے۔</p>
<p>بہت دن ہوئےہمارےکسی ارسطونےہوامیں پھونک ماری تھی کہ آج کل ایم بی بی ایس کا زمانہ ہے ۔ اس پھونک کا ایسا اثر ہواکہ لوگوں کےسوچنےسمجھنے کی صلاحیت اس میں کہیں اڑ گئی۔ پوری قوم ہی ڈاکٹر بننے نکل کھڑی ہوئی۔ سبھی کا رخ میڈیکل کالجوں کی طرف ہوگیا ۔ کالجوں کے میرٹ اور فیسیں دونوں ہی آسمانوں پر پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ بعد کسی نے ایم بی اے کا شوشہ چھوڑ دیا اور لوگ میڈیکل کالجوں سے ایم بی اے کرنے چل پڑے۔ پھر کمپیوٹر آگیااور لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب ہم سب پرایم فل اور پی ایچ ڈی کرنےکاجن سوارہوگیاہے۔ستم یہ ہےکہ یہ ڈگریاں ریسرچ کے لئے ہوتی ہیں جبکہ ہم ان ڈگریوں کے ذریعہ نوکریاں ڈھونڈا کریں گے۔</p>
سیانے کہتے ہیں قدرت ہر انسان کو کچھ انفرادیت دے کر بھیجتی ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی اس انفرادیت کو اپنے اندر تلاش کرے اور اس کی بنیاد پر اپنے ماحول میں اپنا مقام بنائے۔ہمارا ماننا یہ ہے کہ ذہنی استعداد کے لحاظ سے ہر انسان منفرد ہوتا ہے ۔ اس انفرادیت کی وجہ سے بنیادی طور پر اس کا مقابلہ بھی اس کی اپنی ذات کے ساتھ ہوتا ہے کسی دوسرے کے ساتھ ہرگزنہیں۔اپنی ذات کے ساتھ مقابلے کا مطلب یہ ہے کہ انسان پر اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو دریافت کر کے انہیں نکھارنے اور عمل میں لانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ اپنے اہداف کا تعین کر ے اور پھر نہایت ایمانداری کے ساتھ ان کے حصول میں مگن ہوجائے، اس طرح وہ سیڑھی در سیڑھی عروج کی طرف بڑھتا چلاجائے گا۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر مثبت طرزِ عمل پیدا ہوگا اور اس کی شخصیت نکھرتی چلی جائے گی۔
اس کے برعکس دوسروں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا نقصان یہ کہ انسان کے اندر منفی عادات پیدا ہوجاتی ہیں۔حسد اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے جذبات عود کر آتے ہیں۔ دوسروں کی نقالی کرتے کرتے اپنی شخصیت توڑ پھوڑ کا شکار ہوجاتی ہے اور "دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا" رہتا ہے۔
حاصل ِ کلام یہ ہے کہ قدرت ہمیں جوبنانا چاہتی ہے وہ ہم کبھی نہیں بنتے۔ ہمیں اس دنیا میں بہت سی کامیابیاں اور کامرانیاں سمیٹنے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ ہم اس دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنے کے بجائے تمام عمر دوسروں کے حصے پر للچائی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ حصہ جو کبھی ہمارے مقدر میں نہیں ہوتا۔ خود کو دکھی کرتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی پریشانیوں اور رنج کا باعث بنتے ہیں۔